Saturday, January 16, 2010

رضاءالحق صدیقی
مظہریات سے جمالیات تک
" واہ واہ" خوب باندھا ہے کی صدا نےاس کے دل کی بے ترتیب ردھم کو متوازن کر دیا تھا.اب اس کے چہرے پر سرخی بکھرتا لہو گھبراہٹ کی بجائے جوش کا رنگ لئے ھوئے تھا.
نوجوان شاعر جسے مشق سخن کا آغاز کئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا اپنی خوب صورت سی رومانوی غزل پیش کر کے واپسی کے لئے سٹیج سے مڑا، تھوڑا سا لڑکھڑایا اور پھر جوش بھری دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ دیگر ساتھیوں میں جا بیٹھا.
یہ منظرنامہ ہے گورنمنٹ کالج ساھیوال کی ادبی تنظیم بزم سخن کا، جس کی ہفتہ وار ادبی نشت میں اس نوجوان شاعر نے شرکت کا آغاز کیا تھا.
رومانوی شاعری کے بین السطور عشق حقیقی یا عشق مجازی جلوہ افروز ہو ، یہ ضروری تو نہیں. نرگسیت بھی رومان کی وجہ تسمیہ ہوسکتی ہے، لڑکپن کی زیادہ تر شاعری نرگسیت کی دین ہوتی ہے. نوجوان شاعر جس نے ایک چھوتے مضافاتی شہر سے ایک تھوڑے بڑے مضافاتی شہر مین حصول علم کے لئے ہجرت کی تھی نرگسیت آمیز رومان کا علمبردار شاعر تھا. اس نوجوان شاعر نے بلا شبہ خود کو آغاز سفر میں رومانویت کی گرفت میں دے دیا تھا لیکن حیات شناسی اور وقت کی رفتار نے اس کے لئے نئے راستے متعین کئے.
اس نے اپنی فکر کی جہات کے لئے اپنے آپ کو محدود نہیں کیا اس نے فکر کو جلا بخشنے کے لئے نئے راستے تراشے.
اس نے سوسائٹی کی زود فراموشی و شکست و ریخت اور تصورات کی پامالی سے لے کر تمام تغیرات کا مکمل منظرنامہ اپنی شاعری میں پیش کیا. وقت کے لمبے سفر نے اسے نرگسیت کی گرفت سے نکال کر اس مقام پر لا کھڑا کیا جو زندگی سے بھرپور کسی بھی شخص کے اندر پیار کی رت جگا دیتا ہے. اس پیار کی کہانی کا تانا بانا بنتے ہوئے کل کا نوجوان شاعر آج کا صاحب طرز کہنہ مشق شاعر قاری کو اپنی جگہ لا کھڑا کرتا ہے. یہی وہ مقام ہے جہاں یہ شاعر اپنے اندر مظہریات سے جمالیات تک کے تمام زاوئے اپنے قاری پر کھول دیتا ہے. شاعری صرف عرض ہنر کا نام نہیں. یہ ظاہر سے باطن اور باطن سے ظاہر کے سفر سے مستعار ہے.
تو فقط سینہ و دل ہے نہ فقط عارض و لب
سخن آغاز کرے کوئی کدھر سے پہلے
مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے
ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
عباس تابش کے نام سے شہرت پانے والے اس شاعر نے پہلی ہجرت حصول علم کے لئے میلسی سے ساھیوال تک کی، ساھیوال مجید امجد کا شہر، دوسری ہجرتابش نے حصول روزگار اور حصول نام کے لئے کی اور اس ہجرت نے اسے کنویں سے سمندر میں لا پھینکا. دستور زمانہ کی طرح ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لاھور جیسے ادب کے سمندر کی کوئی لہر ریت پر لکھے ہوئے نام کی طرح اسے بھی بے نام کر دیتی لیکن عباس تابش کی فکری وسعتوں اور اضافتوں کی بنت کی تمام تر جمالیاتی پرتوں نے اسے نا صرف نےنام ہونے سے بچایا بلکہ اس کا نام اس فہرست میں شامل کر دیا جو نامور ہوتے ہیں.
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیںوہ ٹوٹٰی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
پاس ہی ڈوب رہی ہے کوئی کشتی تابش
خود نہیں بچتے اگر اس کو بچانے لگ جائیں
سوسائٹی میں اقدار کی شکست و ریخت کا اس سے بہتر نوحہ اس سے پہلے نہیں کہا گیا.
تابش کو تخلیقی زبان پر بلاشبہ قدرت حاصل ہے اس کا کہنا ہے کہ
خلوت خاص میں بلوانے سے پہلے تابش
عام لوگوں میں بہت دیر بٹھایا گیا میں
مجھ ایسے کوہ کن کو رفتگان کا رنج ہے تابش
میں پتھر کاٹ کر نہریں نہیں کتبے بناتا ہوں
میں ادب کا ادنی سا قاری ہوں. اسی ناطے یہ سمجھتا ہوں کہ تابش کے کلام میں ایک خاص غنا کا عنصر ہے. اس کے اشعار پڑھنے سے ایک کیفیت کا احساس ہوتا ہے، ایک وجد کا عالم طاری ہونے لگتا ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اچھوتی بات کہہ دی گئی ہے. اس کے کلام کی زیب وزینت میں تغزل کا بڑا حصہ ہے اور اس تغزل نے اس کی غزل کو مقبول رنگ عطا کیا ہے.
تابش کا یہ شعر دوہراتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ھوں
مجھ ایسے کوہ کن کو رفتگان کارنج ہے تابش
میں پتھر کاٹ کر نہریں نہیں کتبے بناتا ہوں
یہی لہجہ اردو غزل میں تابش کو منفرد بناتا ہے.
Raza Ul Haq Siddiqi
Cell: 03334254489
E.Mail: raza_siddiqi@hotmail.com

Sunday, January 10, 2010

علی پور کا بیلی

علی پور کا بیلی


اور شہروں میں اک عمر گذری پھر بھی تنہا تنہا ہیں
آج وہ یاد آتے ہیں لمحے نکلے تھے جب گاوں سے
ھجرت ، نقل مکانی یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی ازل سے انسان کو ودیعت کر دی گئی.سب سے پہلی جبری ہجرت تخلیق کائنات کے فورا بعد ھوئی جب آدم نے اپنے خالق کی حکم عدولی کی جس پر آدم کو حکم دیا گیا کہ "اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹہرنا اور وہیں گذر بسر کرنا ہے."
ھجرت دنیاوی ایک بار پھر وقوع پذیر ہوئی جب منکرین خدا کفار مکہ نی محبوب خداوندی پر عرصہ حیات تنگ کر دیا پس میشت خداوندی یہی تھی کہ محبوب خدا، مکہ سے ہجرت کر جائیں سو مکہ سے حبشہ اور آخر میں مکہ سے مدینہ کے سفر مین ظہور پایا.
ھجرت کرنا ہر روح میں عام طور پر اور مسلمانوں میں خاص طور پر ودیعت شدہ ہے. تقسیم ہند کے اعلان کےنتیجہ میں لاکھوں افراد کی نقل مکانی نے ھجرت کو نیا مفہوم بخشا. اس خون آلود ھجرت نے اردو نظم اور نثر کو درد کی کیفیات سے آشنا کیا.
اردو شاعری ، انسان کے عقل و شعور کے اظہار میں سے ایک ہے. ھجرت کا یہ درد آج بھی اردو شاعری میں موضوع سخن ہے.
پنجاب کےشہر مظفرگڑھ کے مضافاتی علاقے علی پور سے تحصیل علم اور رزق رسانی کے لئے لاھور آنے والے قائم نقوی کے ہاں ھجرت کا استعارہ اپنی بھرپور معنویت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے.
منزل پانے کی ان دیکھی خواہش میں
اک مدت سے ھم نے اپنا گھر نہیں دیکھا
قائم نقوی کے ہاں سفر علامت ہے ھجرت کے استعارے کی.
کتنے بیلوں کی خاک چھانی ہے
ہم نے کتنے چناب دیکھے ہیں
دربدر کی خاک چھانتا قائم نقوی اپنے تخلیقی سفر میں صراط مستقیم پر چل رہا ہے. زمانے کی ھجرتیں اس کے تخلیقی سمت تبدیل نہ کر سکیں.
ھجر موسم وصال لمحوں میں
ھمسفر ایک ہنر بنایا ہے
شاعری میں الفاظ کا ذخیرہ ، لاشعور سے شعور میں سفر کرنے والے واقعات اقر تصویر کشی بقول ٹی ایس ایلیٹ، فنی اور تخلیقی سفر ہے. قائم نقوی کے فن کا ہنر انہی چیزوں کے گرد گھومتا ہے.
حقیقی معنوں میں ھجرت قائم نقوی کے زاویہ نظر کا اندرونی خدوخال ہے.
قائم نقوی کے ناقدین نے اسے دھیمے لہجے کا شاعر قرار دیا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ قائم اپنے شہر سے اکھڑ کر جس اذیت سے گذرا ہے اب اپنی بکھری ہوئی
ذات کو سمیٹتے ہوئے باآواز بلند کہہ رہا ہے
ہر ذھن میں کب مجھ سی شوریدہ سری ہوگی
جو بات بھی ہونٹوں سی نکلے گی، کھری ہوگی
قائم کی شاعری میں ہمہ جہتی ہے، ہر جہت کا اپنا رنگ ہے. معاشرے کی ناانصافی ، بے ثباتی اوربے حسی بالآخر انقلاب کی صورت امید کی کرن بن کر ابھرتی ہے.
نظم " اے اسرافیل آ " میں قائم کا کہنا ہے
تمہیں خبر ہے ہم اپنی آنکھوں
کے رت جگوں میں پرے پڑے برف
ہو چکے ہیں
ہم اپنے رنگوں میں کھو چکے ہیں
تمہیں خبر ہے ہم اپنی پہچان کھو چکے ہیں
اس ایک نقطے پہ متفق اور منتظر
ہیں کہ کوئی آئے ،صور پھونکے
ایک اور جگہ قائم کا کہنا ہے کہ
میں اس سنگین سناٹے میں قائم
کسی طوفاں کی آہٹ سن رہا ہوں
بےحسی کی مثال پیش کرتے ہوئے قائم نقوی کا کہنا ہے
ایک عمر سے ہم تو
خامشی سے رہتے ہیں
دیکھتے ہیں ہم سب کچھ
اور کچھ نہیں کہتے
وقت کی عدالت میں
بول دیں جو سچ ہم بھی
دار پر لٹک جائیں
چپ رہے تو مر جائیں
ایک حشر اندر ہے
باہر بھی ہے اک محشر
بند ہونٹ کھولے کون
سچ یہاں پہ بولے کوں
شاعری کے یہ تمام پہلو اپنی جگہ مگر ہجرت کا استعارہ قائم نقوی کی ہر جہت پر بھاری ہے.
منزل پانے کی ان دیکھی خواہش میں
اک مدت سے ہم نے اپنا گھر نہیں دیکھا
تلاش رزق میں ہم بھی چلے تھے
مگر گھر لوٹ کر آئے نہیں ہیں
تحریر: رضاالحق صدیقی



Raza Ul Haq Siddiqi
Cell: 03334254489
E.Mail: raza_siddiqi@hotmail.com

Monday, December 28, 2009

مرزا اسداللہ غالب

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزی ِ عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سواۓ بادۂ ِ گلفامِ مشک بو کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نا بہ فشانی میری

کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری

ہوں ز خود رفتۂ بیداۓ خیال
بھول جانا ہے نشانی میری

متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری

قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری

گرد بادِ رہِ بے تابی ہوں
صرصرِ شوق ہے بانی میری

دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری

کر دیا ضعف نے عاجز غالب
ننگِ پیری ہے جوانی میری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چاہیے اچھّوں کو ، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صُحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر
جاۓ مے ، اپنے کو کھینچا چاہیے

چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل
بارے اب اِس سے بھی سمجھا چاہیے

چاک مت کر جیب ، بے ایامِ گُل
کُچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے

دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چُھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے

دُشمنی نے میری ، کھویا غیر کو
کِس قدر دُشمن ہے ، دیکھا چاہیے

اپنی، رُسوائی میں کیا چلتی ہے سَعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نااُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے

غافل ، اِن مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے

چاہتے ہیں خُوبرویوں کو اسد
آپ کی صُورت تو دیکھا چاہیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر قدم دورئِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے

درسِ عنوانِ تماشا ، بہ تغافلِ خُوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے

وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
صورتِ دُود ، رہا سایہ گُریزاں مجھ سے

غمِ عشاق نہ ہو ، سادگی آموزِ بُتاں
کِس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے

اثرِ آبلہ سے جادۂ صحراۓ جُنوں
صُورتِ رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے

بیخودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو
پُر ہے سایے کی طرح ، میرا شبستاں مجھ سے

شوقِ دیدار میں ، گر تُو مجھے گردن مارے
ہو نگہ ، مثلِ گُلِ شمع ، پریشاں مجھ سے

بیکسی ہاۓ شبِ ہجر کی وحشت ، ہے ہے
سایہ خُورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے

گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں ، تجھ سے
آئینہ دارئ یک دیدۂ حیراں ، مُجھ سے

نگہِ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے ، اسد
ہے چراغاں ، خس و خاشاکِ گُلستاں مجھ سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بُلاتا تو ہوں اُس کو ، مگر اے جذبۂ دل
اُس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے

کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے
کاش یُوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے ، تو چُھپائے نہ بنے

اِس نزاکت کا بُرا ہو ، وہ بھلے ہیں ، تو کیا
ہاتھ آویں ، تو اُنھیں ہاتھ لگائے نہ بنے

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے

موت کی راہ نہ دیکھوں ؟ کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ ، تو بُلائے نہ بنے

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بُجھائے نہ بنے

Saturday, December 26, 2009

حمد باری تعالٰی

حمدِ باری تعالٰی

قیصرنجفی

رونقِ روئے حرف ہےحسن خیال کے سبب

حسنِ خیال ہے ترے ذکر جمال کے سبب

جز تیرے کائنات میں ہے ایسا مہرباں کہاں

پیش آئے التفات سے جو عرضِ حال کے سبب

یہ وحش و طیر اے خدا،ہیں سچے مدح خواں ترے

کرتے نہیں ثنا تری اپنے کمال کے سبب

چاہے جو تو تو ذرے سے پھوٹیں شعاعیں مہر کی

کیا کیا بغاوتیں نہ تھیں کیا رعونتیں نہ تھیں

آ پ اپنی موت مر گئیں تیرے جلال کے سبب

کرتا ہوں بے زبانی کی میں تو زباں میں حمدِ رب

قیصر زبان گنگ ہے رنج و ملال کے سبب